دُکھ تماشا تو نہیں ہے کہ دکھائیں بابا
رو چُکے، اور نہ اب ہم کو رلائیں بابا
موت ہے نرم دلی کیلئے بدنام اُن میں
ہیں یہاں اور بھی کُچھ ایسی بلائیں بابا
ہم سفیرانِ چمن یاد تو کرتے ہوں گے
پر قفس تک نہیں آتیں وہ صدائیں بابا
پتے شاخوں سے برستے رہے اشکوں کی طرح
رات بھر چلتی رہیں تیز ہوائیں بابا
کیسی دہشت ہے کہ خواہش سے بھی ڈر لگتا ہے
منجمد ہو گئیں ہونٹوں پر دعائیں بابا
آگ جنگل میں بھڑکتی ہے ضیائیؔ، شہر میں بات
کیسے بھڑکے ہوئے شعلوں کو بجھائیں بابا
— کلام ضیاؔ جالندھری کا ہے۔ عنوان میرا۔
(زِندانِ اذیّت کے بندوق دار مجازی خدا کی کیفیتِ بُزدلی دیکھئیے کہ “نامعلوم” کا تخلُّص پسند فرماتے ہیں۔ اور ہمارے “تعلیم یافتہ” ان خدائوں کے سامنے یوں سرنِگوں رہے کہ اپنا سرِ بُریدہ ہی کھو بیٹھے۔ اب تو جیسے ہم درندوں سے درد آشنائی اور فرعونوں سے خوفِ خدا کی امیدِ خام لگائے بیٹھے ہیں۔ اس سادگی پر کیوں نہ مر جائیے: بشرطیکہ یہ موت وردی دار اذیّت دہندہ کے ہاتھوں نہ ہو!) —
Leave a Reply