گزشتہ صدی کی ایک مشہورِ زمانہ شخصیت کے سچے قصے سے بات شروع کرتے ہیں۔
ایک بڑے ٹھیکیدار کو برطانوی سامراج کی خدمت پر سرکار نے مراعات سے نوازا۔ القابات میں خان صاحب اور خان بہادر شامل تھے۔ شاید یہی وجہ ہو گی کہ موصوف سلطانہ ڈاکو کی نظرِ “ستائش” میں آگئے۔
ایک دن سلطانہ ڈاکو ان کی حویلی آگیا۔ معمول کا ایک مہمان سمجھتے ہوئے سلطانہ جی کی آئو بھگت کی گئی۔ بیٹھک پہنچنے پر خان صاحب نے خود ایک سیب تراش کر اس پر ہلکا سا نمک چھڑکا اور انجانے مہمان کو پیش کیا۔
استفسار پر نووارد نے بتایا: میں سلطانہ ڈاکو ہوں- آیا تو کسی اور خیال سے تھا مگر آپ کا نمک کھا چکا ہوں اور ارادہ بدل گیا ہے۔
اس لمحے میں حاملِ طاقت ہونے کے باوجود جس شخص کے نام سے ہم لفظ “ڈاکو” منسوب کرتے ہیں وہ بھی اپنی اقدار بھُلا نہ سکا۔
خودی و خودداری تو ایک طرف، اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے سٹاف کالج میں یہ سبق پڑھایا کریں۔ شاید ہمارے جرنیل بھی سلطانہ ڈاکو سے نمک حلالی سیکھ پائیں۔
گزشتہ چند مہینوں میں، ایک آدھ مرتبہ میرے بچپن کے رفقاء نے مجھے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کا نظام اب مختلف ہے اور مجھے اپنی سوچ و وضع پر نظرِ ثانی کرنی چائیے ہے۔
بہت سوچا اس بارے میں۔ اس بے عقلی کو آپ فرسودہ خیالی ہی کہ لیجئیے، مگر جس آئینی جمہوریہ (republic) سے وفا کا حلف اٹھایا تھا، اس سے ہی نمک حلالی نبھانے کا ارادہ ہے۔
یہ جانتے ہوئے کہ ایسی باتیں آجکل غداری کے زمرے میں آتی ہیں، میں پھر بھی یہ کہوں گا ہمارے اگلی نسلوں کیلئے سلطانہ ڈاکو صاحب آجکل کے عسکری جرنیلوں سے بہتر مثالِ کردار فراہم کرتے ہیں۔
یقیناً میں غلطی پر ہو سکتا ہوں۔ یا پھر شاید ہم اہمیتِ اقدار اور فرسودگیِ خیال میں فرق پرکھنا بھول چکے ہیں۔ آپ خود فیصلہ کر لیجئیے۔
Leave a Reply