بے غیرت، کون؟

کسمپُرسی اور شرمندگی تو اب ایسے ہے جیسے اس کیفیت میں زمانہ ہی گزر گیا ہو۔ لیکن پھر بھی یہ سلسلہ ایسے چلا جا رہا ہے جیسے کہ لاہور کے شمع سینما میں چلتی ہوئی ایک گولڈن جُوبلی فلم۔

لیکن لطیف کھوسہ صاحب کی کل کی تقریر نے زخم کو پھر سے ہرا کر دیا۔ اپنے گھر پر فائرنگ کے بیان میں کھوسہ صاحب نے بتایا کہ انھیں دھمکی دی گئی ہے کہ اگر وہ “راہِ راست” پر نہ آئے تو ان کی گھریلو خواتین کی تصاویر اور وڈیو عام کر دی جائیں گی۔

صاف ظاہر ہے: جو مردود آج ہماری سینکڑوں بہنوں اور بیٹیوں پر ہاتھ ڈال چکے ہیں، ان سے کل قوم کی کسی بھی بیٹی کی عصمت محفوظ نہیں۔ اور موجودہ احوال میں ایسی توقع رکھنا بھی حد درجے کی بیوقوفی ہو گی۔

ایسی دھمکیاں دینے والے ان ملعونِ مِلّت کو للکارتے ہوئے کھوسہ صاحب نے کہا:
“چھُپے ہو، آئو تو سہی سامنے۔”

ہمارے قومی ماتھے پر کلنک کا یہ ٹیکا کیا رضاکارانہ طور پر سامنے آنے کی جرات و ہمیّت رکھتا ہے؟ نہیں، اس سوال کا جواب ہمیں خود ہی ڈھونڈنا ہو گا۔

ایک سابق فوجی ہونے کے ناتے یہ بتاتے ہوئے شرمندگی ہوتی ہے کہ جس بے غیرت بزدلوں کے ٹولے کو کھوسہ صاحب للکار رہے ہیں، اُس کا تعلق محض پاکستان کی افواج سے ہی نہیں بلکہ اُس کی قیادت سے ہے۔

لیکن اب شرمساری کیسی؟ وہ وقت تو کبھی کا گزر چکا۔ اب تو حقیقت سے نمٹنے کا لمحہ سر پر ہے۔ اور یہ سمجھنے کی گھڑی بھی آ گئی ہے کہ تباہ حالیِ پاکستان کی تمام تر ذمہ داری اسی نظام پر ہے جس سے ہم نبرد آزما ہیں۔

اور اس مجرمانہ نظام کو موجودہ مقام تک پہنچنے میں دہائیاں لگیں۔ ایوب خان سے عاصم منیر تک، یہ حکومتی / معیشتی / سماجی نظام جس طرح ارتقا کے مراحل سے گزرا، اسے سمجھنا بہت اہم ہے۔ لیکن پھر بھی اس نظام کے موجودہ ٹھیکیداروں سے نفرت کرنے والے کچھ لوگ اس نظام کے بانیوں اور مورثینِ اعلیٰ سے ابھی تک عشق میں مُبتلا ہیں۔

اور ہر فورم میں ایسے بھی آسانی سے مل جاتے ہیں جو دوسروں کو حقیقت سے آنکھ چرانے کی تلقین کرتے ہیں۔

عملی لاچارگی تو سمجھ میں آتی ہے۔ مگر اُس ذہنی پراگندگی کو کیا کہئیے جس میں ہر چیز کو “سیاست” کا نام دیکر گفتگو سے خارج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لگتا ہے کچھ “ادارے” تعلیم اور حب الوطنی کے نام پر برین واشنگ میں کافی کامیاب رہے ہیں۔

نتیجہ یہ کہ ہم نے اختیاری بے لگامی کو اتنا پسند کیا کہ وہ اب فرعونیت کی حدود پار کر چکی ہے۔ ہم نے اخلاقی کم ظرفی کو اتنا سراہا کہ وہ اب درندگی سے آگے بڑھ چکی ہے۔

انفرادی طور پر جرات کی مثالیں بہت خون بڑھاتی ہیں۔ بہت سے مردوں کے علاوہ، ان میں ہماری خواتین اور بچوں کا بربریت کے خلاف کردارِ استقلال خاص طور پر باعثِ ناز ہے۔

لیکن انسان پھر بھی یہ سوچتا ہے کہ آخر ۲۲ کروڑ لوگ چند وردی دار غنڈوں کے سامنے کیسے اپنا آپ کھو بیٹھے۔ پھر دیکھنے پر جواب بھی مل ہی جاتا ہے۔

وہ فارغ الضمیر “سیانے” تو سمجھ میں آتے ہیں جو اس مجرمانہ نظام کی “فیض یاب” انجمن میں ہیں۔ لیکن اس جمِ غفیر میں اکثریت ان کی ہے جو خوفزدگی میں سات دہائیوں سے بلی کے سامنے کبوتر کی مانند آنکھیں مُوندے بیٹھے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اگلی نسلوں کو اس کم مائیگی کی کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی۔

تو پھر “بے غیرت” کون؟

تو پھر قوم کو اس دلدل سے نکالنے کا ذمہ دار کون؟


Posted

in

by

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *