نظریہِ اُلٹی گنگا

از اعظم سعید

تقسیم کے وقت چونکہ گنگا پاکستان کے قبضے میں نہ آئی تو ہمارے مُدبّرین نے فیصلہ کیا کہ دشمن کو مکمل شکست دینے کیلئے ہم اپنے مِلّی طریقہِ کار کو الٹی گنگا کی طرح بہنے دیں گے۔

پرعزم قوم ہونے کے کارن یہ کام کوئی زیادہ مشکل نہ تھا۔ نتیجتاً اب ہمارے ہاں:

** بچے بالغوں سے زیادہ دور اندیش ہیں۔ عورتیں مردوں سے زیادہ نڈر ہیں۔ ان پڑھ تعلیم یافتہ سے زیادہ باشعور ہیں۔
** اندورنی سکون اتنا کہ غنڈوں کو ہم نے پولیس کی وردی پہنا دی ہے۔
** دشمن سے مکمل حفاظت کیلئے عسکری ارباب نے ملک کے چپّے چپّے کو اپنی قانونی ملکیت اور جبری قبضے میں لے لیا ہے۔ (دشمن کی اب جرات نہیں کہ اس طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھ ہی سکے۔)
** سچ بولنے کی سزا موت ہے (چاہے آپ کینیا ہجرت کر کے پناہ لینے کی کوشش بھی کر لیں)۔
** بُت پُوجنے میں مسلمان ہندوؤں کو کوسوں دور چھوڑ چکے ہیں۔ (ویسے ابھی بھی اپنے ہی بنائے بُت پہچاننے میں ذرا دقت ہوتی ہے۔ کچھ عرصے میں اس مشکل کا حل بھی نکال لیں گے۔)
** ہماری فوج دنیا میں سب سے زیادہ خدمت گزار ہے۔ یہ اس ملک کی ساری فیکٹریاں بھی چلاتی ہے اور بینک بھی۔
** اکثر صحافیوں کے علاوہ، بہت سے مذہبی پرچارک بھی فوج کے ملازم ہیں۔ میرے خیال میں تو میرا نکاح خوان بھی ادھر سے ہی آیا تھا۔
** اور تو اور، ہمارے ججوں کے تمام فیصلے بھی ہماری فوج ہی انہیں لکھ کے دیتی ہے۔ اور تھانوں پر تمام FIR بھی یہی درج کرواتی ہے۔ معلوم نہیں ان نِکھٹُّو ججوں اور پولیسیوں کو تنخواہیں کیوں دی جاتی ہیں جب کہ سارا کام ہماری کامی فوج کرتی ہے۔ (لفظ “کامی” کا دوسرا مفہوم اس جملے میں قطعاً مقصود نہیں۔)
** انصاف کیلئے قاضی یا وکیل کی کوئی ضرورت نہیں۔ آئین اُس کی ملکیت ہے جو بندوق اور وِڈیو کیمرے پر قابض ہو۔
** چونکہ تمام انسانوں کے حقوق برابر ہیں، لہٰذا عورتوں پر بھی اب وہی تشدّد کیا جاتا ہےجس کے مرد پہلے ہی عادی ہو چکے ہیں۔
** فوج کا حلفیہ بیان ہے کہ دہشت گردی “نامعلوم” ملک دشمن لوگ کروا رہے ہیں۔ گر سوچیئے تو اس بات میں خاطر خواہ وزن ہے۔
** چونکہ فوج کا حلفیہ بیان یہ بھی ہے کہ وہ کبھی سیاست میں مداخلت نہیں کرتی، لہّذا قوم قولِ حق سمجھنے کیلئے قرآن و حدیث کے بعد اب ہمیشہ ISPR کی پریس کانفرنس پر ایمان لاتی ہے۔

ہماری اس برق رفتار اخلاقی اور روحانی پیش رفت کے پیشِ نظر دشمن نے خیر سگالی جذبے میں اعلان کیا ہے کہ وہ گنگا ماتا بھی ہمارے حوالے کرنے کیلیئے تیار ہے۔ لیکن یہ ہمیں اپنے نظرئیے سے ہٹانے کی ایک سازش ہے۔ لہٰذا ہمیں فی الفور دشمن کی اس مکارانا چال کو رد کر دینا چاہیے ہے۔

جس راہ پر ہم سات دہائیوں سے خوش و خُرّم چلے آ رہے ہیں بھلا اُس پر نظرِ ثانی کی کیا ضرورت ہے؟

تیز ترک گامزن، منزلِ ما دور نیست۔


Posted

in

by

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *